پاکستان جینفیر ’’چُوڑی‘‘ کا نہیں
شیزا نذیر
’’جینیفر جینیفر‘‘ خوف کے مارے امی کی حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ اُن کے پاؤں میں جوتی تھی نہ سر پر دوپٹہ۔ تین مرلے کے گھر میں وہ بھاگ بھاگ کر ہلکان ہو چکی تھیں۔ پڑوسیوں کی دیوار سے ایک بڑا سا تولیہ اُن کے ہاتھ میں تھا، جو اُنہوں نے مجھے اوڑھا دیا۔ ابو کو ذیابیطس کی وجہ سے ٹانگوں میں ہر وقت درد رہتا تھا، لیکن آج تو اُن میں جیسے کوئی مخفی قوت آ گئی تھی۔ چند ہی لمحوں میں گلی میں سے چیخوں کے ساتھ نعروں کی آوازیں بلند ہوئیں۔ ایک قیامت بپا تھی ’’مارو، جلاؤ دو اِن کو، کافروں کو نکالو یہاں سے، یہ پاک لوگوں کی سر زمین ہے کافروں کی نہیں۔‘‘
ابو نے میرا اور امی ہاتھ پکڑا اور ہم اپنے گھر سے بھاگ نکلے۔ بستی سے باہر نکلے ہی تھے، تو آگ اور دھوئیں کے بادلوں نے بستی کو چھپا دیا۔ ’’میری کتابیں، ٹینا اور ٹونی‘‘ مَیں ابو سے بس اِتنا ہی کہہ پائی تھی کہ انکل میتھیو رکشہ لے کر آ گئے اور ہم رکشے میں بیٹھ کر اُن کے گھر آ گئے۔
ٹینا اور ٹونی، ابو نے آسٹریلین طوطوں کا جوڑا مجھے میٹرک پاس کرنے پر تحفہ دیا تھا۔ اب تو اُنہوں نے میرا نام اور ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کہنا بھی سیکھ لیا تھا۔ جب ہم گھر سے بھاگنے کے لیے نکل رہے تھے تو اُن کی آوازیں میرے کانوں سے ٹکرا رہی تھی ’’جینیفر، پاکستان زندہ آباد، جینفیر پاکستان زندہ آباد‘‘۔ وہ گھبراہٹ میں اپنے پنجرے سے ٹکرا رہے اور یہ دہراتے جا رہے تھے ’’جینیفر، پاکستان زندہ باد، جینفیر، پاکستان زندہ باد‘‘۔
ابو نے بڑی مشکل سے پیسے جمع کر کے یہ گھر لیا تھا۔ اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ واپس نہیں جائیں گے، یہیں رہیں گے۔ انکل میتھیو نے اپنے گھر کا اوپر والا حصہ ہمیں کرائے پر رہنے کے لیے دے دیا۔ مجھے جب ٹینا اور ٹونی یاد آتے تو انکل میتھیو کے بچے ’’جینیفر، پاکستان زندہ باد‘‘ کہنا شروع ہو جاتے لیکن جب ابو پاس ہوتے تو وہ خاموش رہتے۔
14ویں اگست ’’جشنِ آزادی‘‘ کے موقع پر انکل میتھیو کے بچے پاکستانی پرچم اور جھنڈیاں لے آتے۔ مَیں ابو کی وجہ سے اپنے پورشن میں سجاوٹ نہ کرتی لیکن بچے اپنے پورشن کو خوب سجاتے اور مَیں اُن کا ساتھ دیتی۔ بچے پیسے جمع کر کے مجھے دیتے تاکہ مَیں اُن کے لیے پکوان بناؤں۔
مجھے یاد آیا جب میں اپنے گھر میں ابو کے ساتھ مل کر چودہ اگست پر اپنا گھر سجاتی تھی اور امی ہمارے پسند کے پکوان بناتی تھیں تو دادا جان کہا کرتے تھے کہ ’’یہ ملک تم لوگوں کا نہیں ہے‘‘۔ مجھے دادا جان کی یہ بات بہت بُری لگتی تھی۔ ابو ہمیشہ میری سائیڈ لیتے تھے اور دادا کو کہہ دیتے تھے کہ ’’ایک دو بندوں نے آپ کو دھوکا کیا دیا آپ نے تو بات دِل پر ہی لے لی۔ خود ہی تو آپ بتاتے ہیں کہ آپ قیامِ پاکستان سے پہلے سے یہاں کے دھرتی جائے ہیں‘‘۔
چودہ اگست پر تقریباً ہر بار میری دُہری خوشی ہوتی۔ مجھے نہیں یاد کہ کوئی ایسی چودہ اگست گزری ہو جس میں مَیں نے تقریری یا ملّی نغموں کے مقابلوں میں نمایاں پوزیشن نہ لی ہو۔ ابو اگرچہ دادا کی طرح ہمیں جشنِ آزادی منانے سے روکتے نہیں تھے لیکن اب وہ اُس میں شامل بھی نہیں ہوتے تھے۔
دیکھتے ہی دیکھتے انکل میتھیو کے بچے بچپن سے نکل کر نو عمری میں آ گئے۔ گھر کا خرچا تو انکل اُٹھا لیتے لیکن بچوں کو تعلیم دِلوانا مشکل تھا۔ انکل میتھیو کا بڑا بیٹا دانی ایل سکول چھوڑ کر مزدوری کرنے لگا۔ میں ہسپتال میں بطور نرس کام کرنے لگی۔ ڈیوٹی سے واپسی پر باقی بچوں کو میں ٹیوشن پڑھا دیتی۔
دانی ایل نے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کر کے سمارٹ فون لے لیا۔ اُس نے سمارٹ فون کیا لیا میرے تو دماغ کی دہی بنا دیتا۔ ’’ فیس بک آئی ڈی بنا دو باجی۔ تصویر شئیر کیسے کرتے ہیں؟ اِس پر کوئی اچھا سا کمینٹ تو لکھ دو۔ یہ دوسروں کی تصویریں مجھے کیسے مل جاتی ہیں جو میرے فرینڈ ہی نہیں؟ اچھا یہ ٹی اے جی کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’گدھے یہ ٹیگ ہوتا ہے۔ جیسے کہ یہ تصویر تمہارے دوست نے تمہیں ٹیگ کی ہے اور اگر تم اِس کو اپنی ٹائم لائن پر شو کرنا چاہتے ہو تو اِس پر اوکے کر دو، اِس طرح یہ تمہارے دوستوں کو بھی مل جائے گی‘‘۔ ’’ٹھیک ہے باجی کر دیتا ہوں اوکے۔ ساری تصویریں اوکے کر دیتا ہوں‘‘۔
آج مَیں ڈیوٹی سے جلدی آ گئی تھی۔ امی نے فون کیا کہ ابو کی طعبیت خراب ہے۔ شوگر لیول بہت کم ہو گیا تھا۔ ابو کی طبعیت سمبھلی تو میں سو گئی۔ عجیب سا خواب دیکھ رہی تھی شاید۔ ’’جینفیر، جینفیر‘‘ خوف کے مارے امی کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ ابو میں بھی بولنے کی سکت نہیں تھی۔ اُن کی آنکھوں سے بس آنسو بہہ رہے تھے۔ ’’جینفیر اپنے ابو سے کہو کہ ہمارے ساتھ چلیں‘‘ امی نے کہا۔
’’اب کہاں جانا ہے؟‘‘ ابو یہی کہہ رہے تھے کہ تم لوگ جاؤ اور جاتے ہی مجھے بتا دینا کہ خیریت سے پہنچ گئے ہو۔ مَیں بھی بیٹھ گئی کہ اگر ابو نہیں جائیں گے تو مَیں بھی نہیں جاؤ گی۔ ابو کمر پر ہاتھ رکھ کراُٹھ کھڑے ہوئے اور ساتھ جانے کے لئے راضی ہو گئے۔ ہم گلی میں آئے۔ ہر کوئی بھاگا جا رہا تھا۔ محلے کے کچھ مردں کے ہاتھوں میں پیٹرول کی بوتلیں تھی اور اُن کی عورتیں جن کی زچگی میں مَیں اُن کی اپنے ہسپتال میں مدد کر چکی تھی اپنی چھتوں پر کھڑی کہہ رہی تھی ’’جینفیر چُوڑی نے بھی اپنی ماں کو دو تولے سونے کی بالیاں اور انگوٹھی بنا کر دی ہے۔ ماں نے وہ بالیاں اور انگوٹھی پیٹی میں سمبھال کر بیٹی کے جہیز کے لئے رکھ دی ہیں۔ یہ تو بھاگ رہے ہیں۔ بس اب وہ بھی ہماری ہی ہیں‘‘۔
مَیں خواب سے اُس وقت جاگی جب ہم ایک بار پھر اُسی مقام پر تھے جہاں چند سال پہلے تھے۔ اب کے ابو کے کسی دوست کا بیٹا رکشہ لے آیا۔ ہم رکشے میں بیٹھے اور ایک انجان منزل کی طرف بڑھنے لگے۔ رکشے کا شور جیسے مدھم سا پڑ گیا تھا اور میرے کانوں میں چند سال پہلے کی آوازیں گوجنے لگیں ’’مارو، جِلاؤ دو اِن کو، کافروں کو نکالو، یہ پاک لوگوں کی سر زمین ہے کافروں کی نہیں‘‘۔
دادا اور ابو کی طرح اب مَیں بھی سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا واقعی یہ میرا پاکستان ہے؟