پاکستان کی حقیقی بنیاد، معاشرتی علوم سے
جاوید قریشی، بارسلونا
دنیا کے بہت سارے ممالک مختلف بنیادوں پر معروض وجود میں آئے لیکن ہمارا ملک ایک انتہائی بھاری بھرکم وجہ کی پر معرض وجود میں آیا۔بے شک اس پر ہمیں فخر اور ناز ہے، وہ وجہ صرف اور صرف اسلام ہے اور اس کے علاوہ اس بات پر بھی خوشی ہے کہ جس عظیم ہستی نے یہ اسلامی سلطنت بنائی، وہ مکمل طور پر اسلام کو سمجھتا اور جانتا تھا۔ساری عمر اس نے اسلامی یونیوزسٹیز میں اسلام کی تعلیم حاصل کی اور تمام اسلامی قوانین پر عبور حاصل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹے اور واپس آتے ہی اپنی ظاہری شناخت پر بھی توجہ دی تا کہ پہلی والی ظاہری شناخت کا ٹکراو اسلامی شناخت سے نا ہو یعنی وہ سگار پینے، سوٹ بوٹ ٹائی وغیرہ سے مکمل اجتناب برتتے تھے اور ہر وقت تسبیح ہاتھ میں رکھتے تھے۔ آپ کی اس ظاہری اسلامی شناخت سے لوگ بہت متاثر ہوتے تھے۔
بس ایک رات ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال کو خواب میں پاکستان بنانے کا الہام ہوا۔ آپ نے فوراً اس کا تذکرہ قائد اعظم سے کیا، جسے قائداعظم نے فوراً مان لیا کیونکہ اس خواب کے علاوہ تاریخ بھی بتا رہی تھی کہ حقیقت میں پاکستان کی بنیاد تو محمد بن قاسم نے ہی رکھ دی تھی۔
محمد بن قاسم صرف اپنے چچا حجاج بنی یوسف کا حکم مانتا تھا اور اسی کے کہنے پر پاکستان کی بنیاد رکھنے انڈیا حملہ آور ہوا تھا۔ حجاج بن یوسف جس نے انڈیا پر حملے کا حکم دیا تھا، ایک بہت ہی رحم دل پکا مسلمان سپہ سالار ہوتا تھا اور آج تک اس نے کبھی ایک چڑیا تک نہیں ماری تھی۔ در گذر اور معاف کرنا اور ناحق کسی کو قتل نہ کرنا۔ اس کی بڑی بڑی خوبیاں تھیں اور یہی وجہ کہ آج بھی پاکستان میں کبھی کا ناحق قتل نہیں ہوتا ہے۔
بہرحال قائد اعظم نے اس عظیم اسلامی سلطنت کے لیے اپنے مجاہدوں کی تلاش شروع کر دی، جو رات دن ان کے ساتھ اس عظیم اسلامی سلطنت کے لیے کام کریں۔ آپ نے اس کام کے لیے صرف ان لوگوں کو چنا جن کی معاشرے میں وجہ شہرت مذہب تھی اور جو غریب تھے۔اس کے علاوہ بکاؤ مال بھی نہیں تھے۔ قائد کو پہلے دن سے ہی جاگیر داری نظام سے شدید نفرت تھی، اس لیے مسلم لیگ میں وطن کی لڑائی کے لیے ایک بھی جاگیردار کو شامل نہ کیا۔ آپ کو پہلے دن سے اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ اگر جاگیرداروں کو شامل کیا گیا تو وہ ملک کا بیڑا غرق کر دیں گے۔ شکر ھے آج ہم ان جاگیر داروں کے شر سے محفوظ ہیں اور ہماری اس اسلامی سلطنت میں مکمل طور پر جاگیر داری سسٹم ختم ہو چکا ہے۔
بہرحال اب قائد نے صیحح بندوں کا انتخاب کر لیا تھا اور اب انگریزوں کے خلاف عظیم لڑائی لڑنی تھی۔ اس کے لیے آلاتِ حرب کی ضروت تھی اور ویسے بھی انگریز جدید اسلحہ سے لیس تھا اس کا حل بڑی سوچ بچار کے بعد نکالا گیا اور قائد کے لئے ایک عظیم ٹائپ رائڑ خریدا گیا جس کے ذریعے قائد دشمنوں کے تابڑ توڑ حملوں کا جواب دیا کرتے تھے اور ساتھ ساتھ ہندوؤں کی اسلامی سلطنت کے خلاف شاطرانہ چالوں کا بھی توڑ کیا کرتے تھے۔یہ عظیم ٹائپ رائٹر اب پتہ نہیں کس حال میں ہے، اسے تو سونے کی میز پر نگینے جڑے ھوے ڈبے میں رکھ کر عوام کے درشن کے لیے کسی بہت بڑے حال میں رکھنا چاہیے تھا۔
ایک بڑی لڑائی اور ایک عظیم جنگ کے بعد جب یہ اسلامی سلطنت معرض وجود میں آئی تو پہلے دن ھی قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں نے مل کر ایک بہت بڑا عملی قدم اٹھایا یعنی جتنے بھی غیر اسلامی اور خاص کر انگریز حاکموں کے عیسائی قوانین تھے، انہیں منسوخ کردیا اور فوری طور پر شریعت کا نفاذ کردیا کیونکہ آپ کو اور آپکے متقی پرہیزگاروں ساتھیوں کو معلوم تھا کہ دس لاکھ مسلمانوں نے ان کے کہنے پر اور ایک اسلامی سلطنت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دیا تھا۔ اگر اب اسلامی قوانین نافذ نہ کیے گئے تو پھر ان کا نفاذ ایک خواب بن جائے گا۔ قائد اور ان کے رفقا ہی کی دور اندیشی تھی کہ آج ملک میں کرپشن، رشوت، سفارش، لوٹ مار، قتل و غارت کا نام و نشان نہیں ہے۔ تمام دنیا ہمارے اس اسلامی تشخص کو جانتی ہے اور اب تو ہمارے اس عدالتی نظام، ہماری اسلامی فوج کے آپس میں تعاون کی وجہ سے ہمارے وطن کا جمہوری اور اسلامی چہرہ اواضح طور پر ابھر کر دنیا کے سامنے آ رہا ہے، جس پر ہمیں بہت فخر ہے۔