کتے بھی شعور رکھتے ہیں
ارشد سلہری
کتے اگر کاٹیں نہ تو بہت اچھے جانور ہیں۔آگے پچھے پھرتے ہیں۔دم ہلاتے ہوئے اٹھکیلیاں کرتے ہیں۔پیروں میں لوٹ پوٹ ہوتے ہیں۔جوتیاں چاٹتے ہیں۔بے لوث ہوتے ہیں۔روٹی ملے نہ ملے در نہیں چھوڑتے ہیں۔ انا،ضد،غصہ بالکل نہیں کرتے ہیں۔تذلیل جتنی ہوجائے پرواہ نہیں کرتے ہیں۔ مار کھا کر پھر لوٹ آتے ہیں۔
بس ایک یہی کمزوری ہے کہ بے اعتبار ے ہیں۔ جتنے مرضی نسلی ہوں۔نجانے کب کاٹنے پر اتر آئیں۔ کاٹیں نہ بھی تو بھونک بھونک کر ڈراتے ضرور ہیں ۔بے نسلے توبے وجہ بھونکتے رہتے ہیں۔ بے نسلے کتے بڑے عجیب ہوتے ہیں۔جگہ جگہ منہ مارتے پھرتے ہیں۔ان کا کوئی گھر گھاٹ نہیں ہوتا ہے۔یہ دھوبی کے کتے جیسے ہوتے ہیں۔بدعادات ہوتے ہیں۔بھونکنا عادت بنا لیتے ہیں۔ہر آتے جاتے پر بھونکنا اپنافرض سمجھتے ہیں۔انسانی آبادیوں کے قریب رہتے ہوئے بھی انسان سے دشمنی رکھتے ہیں۔آبادی میں رہنے والوں کی خوب جان پہچان رکھتے ہیں کہ کس پر زیادہ بھونکنا ہے۔کس پر غرانا ہے۔کس کو ڈرانا ہے۔
حیثیت اور مرتبے کو دیکھ کر بھونکتے ہیں۔اپنے جیسوں پر بالکل نہیں بھونکتے ہیں بلکہ دوستانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔اپنی ٹولیاں بناتے ہیں۔جتھے بن کر پھرتے ہیں۔حرام بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔کمزورطبقات سے چھین کر کھانا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔پیٹ بھر جائے تو فاتحانہ انداز میں مٹرگشت کرتے ہیں۔رات کو بے سدھ ہوکر جدھر جگہ ملے بسرا کرلیتے ہیں۔
کم تر درجے کے ان کتوں سے دوستی اچھی ہے اور نہ ہی دشمنی زیب دیتی ہے۔یہ گھات لگا کر بھی کاٹتے ہیں اور خاموشی سے بھی حملہ آور ہوتے ہیں۔کمزور اور بے بس پر اچانک بپھر جاتے ہیں۔اوش اوش کی آواز بھی نہیں سنتے ہیں۔کم ظرفی اور کمینگی کا ایسا بے مثال مظاہرہ کرتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کتے کبھی دوست نہیں ہو سکتے ہیں۔
کتے صرف روٹی کے ہیں۔ملتی رہے تو شانت نہ ملے تو درندے بن جاتے ہیں۔پل بھر میں سارے انسانی احسانات بھلا دیتے ہیں۔طاقت ور اور بڑے قد کاٹھ سے خائف رہتے ہیں۔بڑی ادا سے آگے پچھے دم ہلاتے پھرتے ہیں۔شیر کو بھی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ باقی سب گستاخ ہیں۔ملعون ہیں۔ غدار ہیں۔دشمن ہیں۔یہ بات شیر بھی مان لیتا ہے مگر وقت آنے پر پاس بھی نہیں پھٹکنے دتا ہے۔اول تو یہ بات کتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ شیرکوکس کھاتے میں اپنی مدد کی پیشکش کرتے ہیں۔محض اس لئے کہ کمزور جاتی پر اپنا جعلی رعب اور دبدبہ بنا سکیں۔لیکن انہیں شاید یہ نہیں معلوم ہے کہ کتے شیر نہیں بن سکتے ہیں۔کتے کتے ہی رہتے ہیں۔کیا ہی بات ہوتی کہ کتے بھی موبائل والے کیمرے چلا لیتے ہوتے تو اپنے سے طاقت اور حیثیت و مرتبہ رکھنے والوں کے ساتھ سلفیاں بنا بناکر فیس بک والوں کا ناطقہ بند کر دیتے کہ آج فلاں بلٹیرکے ساتھ لڑائی کے موقع پرفتح کا جشن مناتے ہوئے۔فلاں ٹائیگر کے ساتھ جنگل میں منگل کی شاندار پارٹی میں شریک اعلیٰ نسلی کے دوستان کی محفل میں محو گپ شپ ہیں۔
بلاشبہ پھر کتوں کی خاصیت ہی بدل جاتی۔بھونکنے کے انداز بھی مختلف ہوتے۔بھونکتے بھی تو سر میں بھونکتے اور کاٹ کھانے کی خو بھی کچھ کم ہوتی۔جس سے انسانی زندگی میں حفاظت کا احساس کم ہوجاتا۔سیکورٹی کیلئے اتنے بندوبست نہ کرنے پڑتے۔کتوں سے ڈر اور خوف میں خاطر خواہ کمی آتی۔مگر حضرت انسان بھی توازل سے فوقیت چاہتا ہے۔اشرف المخلوقات ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتا رہتا ہے۔ عدم مساوات اور طبقاتی تقسیم کی لکیر کا خالق بھی تو خود ہی ہے۔کتوں کا گلہ کیا کرنا وہ کون سے تعلیم یافتہ ہیں۔انہیں تو سیکھانا پڑتا ہے۔تربیت کرنا پڑتی ہے۔محبت سیکھاتے ہیں تو محبت کرتے ہیں۔بھونکنا سیکھاتے ہیں تو بھونکتے ہیں۔کاٹنا سیکھاتے ہیں تو کاٹتے ہیں۔چیرپھاڑ سیکھاتے ہیں تو وحشت اور درندگی کرتے ہیں۔