ہماری تہذیب اور الفاظ کا چناؤ


شیزا نذیر

کسی رائٹر نے کیا خوب کہا کہ کسی تہذیب کی اخلاقی اقدار کا امین مطلوبہ معاشرے کا مڈل کلاس طبقہ ہوتا ہے۔ ہائی کلاس طبقہ جدیدیت کے نام پر اخلاقی اقدار کو فرسودہ قرار دے دیتا ہے اور لوئیر کلاس طبقہ تہذیب اور اخلاقی اقدار سے نا آشنا ہوتا ہے یا اُن کے دیگر مسائل جیسے کے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے اخلاقی اقدار کو پسِ پشت ڈالنا پڑتا ہے۔

کم و بیش دنیا کے بیشتر ممالک میں آبادی کو تین طبقات میں منقسیم کیا جاتا ہے اور ترقی پذیر ممالک جیسے کہ پاکستان میں آبادی کا بڑا حصہ مڈل کلاس ہوتا ہے۔ اِس لئے اِسی طبقے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مختلف شبعہ ہائے زندگی میں اخلاقیات کا معیار سیٹ کیا جاتا ہے۔

پچھلے سال میرے ایک دوست نے جنگ گروپ میں ایک آرٹیکل بھیجا جسے ایڈیٹوریل ڈیپارٹمنٹ نے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ اِس آرٹیکل میں ایسے الفاظ استعمال کئے جائیں جو ہماری تہذیب، کلچر اور مڈل کلاس طبقے کے لئے قابلِ قبول ہوں۔ آرٹیکل میں ایک جرمن صحافی خاتون کے بارے میں بتایا گیا تھا جس کی نجی (نازیبا) تصاویر وائرل ہو گئی تھیں۔

نجی تصاویر کے لئے مضمون نگار نے لفظ ’’ننگی تصاویر‘‘ اسعتمال کیا ہوا تھا۔ دوست نے مجھے وہی مضمون بھیجا کہ میں اِس میں پبلیشرز کی پسند کے الفاظ شامل کروں۔ میں نے ’’بے لباس‘‘ اور ’’برہنہ‘‘ کے الفاظ استعمال کئے۔ مضمون نگار نے وہ مضمون دوبارہ بھیجا اور ادارے نے وہ مضمون شائع کر دیا۔

اُس کے چند دِن بعد پھر ایک دوست سے بات ہوئی جو ایک شارٹ سٹوری لکھ رہے تھے اور مجھے بتایا کہ وہ erotic سارٹ سٹوری لکھ رہے ہیں۔ کہانی کی چند سطور مجھے بھی بھیجیں جس میں مرد و خواتین کے اعضائے مخصوص کو جوں کا توں لکھ دیا گیا تھا۔ اور ساتھ میں یہ بھی پوچھا کہ کیا کہانی میں استعمال کی گئی زبان معاشرے میں قابلِ قبول ہو گی کہ نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے میں وہ زبان قابلِ قبول نہیں ہو گی۔ جس پر رائٹر نے کہا کہ ایسا کیوں ہے حالانکہ ہم سب کے ذہن میں تو یہی ہوتا ہے تو پھر اگر اُس کو قلم پر لایا جائے تو پھر کیوں برا لگتا ہے۔ کہنے لگے کہ یہ تو دہراہ معیار ہے۔ بات بھی اُن کی ٹھیک تھی کہ لڑکا جب لڑکی کو دیکھتا ہے تو اُسے بے لباس ہی تصور کرتا ہے اور اگر اُس کے تصور کو الفاظ دے دیئے جائیں تو پھر کیوں شور ہوتا ہے۔

میں سوچنے لگی کہ اگر واقعی اِس بات کو درست مان لیا جائے اور جب مرد خواتین پر نگاہ کریں تو اُس کو الفاظ میں بیان کر دیا جائے تو یہ منافقت تو ہرگز نہ ہوئی۔ جو ذہن میں ہے وہ زبان پر لانے میں کیسی قباخت۔۔۔ اپنے شارٹ سٹوری رایئٹر دوست کو میں نے مشورہ دیا کہ وہ ڈھکے چھپے انداز میں لکھ سکتے ہیں جیسے کہ مشن ایمپوسیبل ۳ کی ہندی ڈبنگ میں ایک لڑکا اپنی گرل فرینڈ سے کافی عرصے کے بعد ملتا ہے اور اُس کے لئے نائٹ ڈریس خریدتا ہے اور کہتا ہے کہ گرل فرینڈ وہ کپڑے پہنے تاکہ اُسے معلوم ہو کہ ابھی تک اُس کو اپنی گرل فرینڈ کا سائز یاد بھی ہے کہ نہیں۔ یہ الفاظ ہندی ڈبنگ میں استعمال کئے گئے جو کہ واضح کرتے ہیں کہ لڑکا کیا کہہ رہا ہے۔ لیکن میرے رائٹر دوست کو یہ ڈبنگ بالکل بھی پسند نہیں تھی۔ کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ الفاظ واضح اسعتمال ہونے چاہئیں۔

میں یہ بھی مانتی ہوں کہ کہانی یا فلم میں ضرورت کے مطابق آپ ایسی زبان استعمال کر سکتے ہیں جیسے کہ بالی وڈ فلم اڑتا پنجاب میں گالی گلوچ کی زبان استعمال کی گئی ہے اور میرے خیال میں وہ زبان کہانی کی صورت حال اور پسِ منظر کے مطابق ٹھیک ہے۔ لیکن کئی فلمیں یا ادب ایسا بھی ہوتا ہے جس کو بس ہٹ کرنے کے لئے گالی گلوچ اور جنسی بولڈ سین ڈالے جاتے ہیں۔ لیکن آپ نے یہ دیکھا ہو گا کہ اکثر ایسی فلمیں یا ادب زیادہ تر فلاپ ہوتا ہے اور ایک نہایت محضوص طبقہ ہی اُس کو پسند کرتا ہے۔ اِس طرح جو مثبت اثر ہونا ہوتا ہے وہ بھی نہیں ہو پاتا کیونکہ لوگ offensive ہو جاتے ہیں۔

اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد کریم ٹیکسی سروس کی طرف سے فیڈ بیک کے لئے موصول ہونے والی فون کال ہے۔ میں کریم ٹیکسی صارف ہوں اور اپنے آفس آنے جانے کے لئے اسعتمال کرتی ہوں۔ فون پر کمپنی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں کریم کی سروس سے مطمئن ہوں؟ میں نے ہاں میں جواب دیا کیونکہ میں واقعی مطمئن ہوں۔ نہایت باکمال سروس ہے۔ خواتین مسافر کا نہایت احترام کیا جاتا ہے۔ جب جب زیادہ کرایہ چارج کیا میں نے ای میل کے ذریعے شکایت درج کروائی اور مجھے جواب بھی ملا جو پاکستان میں رہتے ہوئے میرے لئے ایک انوکھی بات تھی۔ آج تک کریم کے علاوہ میں نے جس جس کو شکایت کی کبھی جواب نہیں ملا۔

اب آتی ہوں کریم ایڈ کی طرف کہ ’’اگر شادی سے بھاگنا ہو تو کریم بائیک کرو‘‘۔ اِس پر زیادہ تر لوگوں کا شدید ردِ عمل دیکھنے کو آیا۔ پہلے تو مجھے صرف ہنسی آئی۔ پھر جیسے جیسے اِس پر ردِ عمل پڑھنے کو ملا تو میرا حال یہ تھا کہ کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر۔ تنقید کرنے والے بھی ٹھیک کہہ رہے تھے اور اُن کے مخالف دلائل بھی بس ٹھیک ہی تھے۔ اِس لئے میں نے کریم کمپنی کو جو فیڈ بیک دیا وہ یہ تھا کہ آخر کمپنی کو اِس طرح کا ایڈ بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اگر تو بزنس پوائنٹ آف ویو سے دیکھیں تو کمپنی کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ وہ اِس قسم کا ایڈ نہ دیں کیونکہ ابھی تو عورت مارچ کے پلے کارڈز پر بات ختم نہیں ہوئی تھی۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کمپنی کو یہ سب معلوم نہ ہو کہ اُن کی مخالفت کی جائے گی۔ میں نے اپنے ایک فیس بک بلاگر سے رائے لی کہ آخر کمپنی کو کیا سوجھی ایسا ایڈ بنانے کی تو اُنہوں نے کہا کہ اس کو منفی مارکٹنگ کہا جا سکتا ہے کہ ’’بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا‘‘۔

چند دِن پہلے میں ایک آرٹ اینڈ گرافکس ورکشاپ میں تھی۔ فسیلیٹیٹر آسٹریلین تھے۔ ورکشاپ میں مجھے کتاب کا کور ڈیزائن کرنے کی اسائنمنٹ دی گئی۔ اور بتایا گیا کہ کور ڈیزائن میں کیا کیا ہونا چاہئے۔ اور یہ سب مارکیٹنگ پوائنٹ آف ویو سے تھا کہ کلچر کے مطابق کتاب کا ٹائٹل اور سب ٹائٹل، کلرز، گرافکس کیسے ہونے چاہئیں۔ کتاب کے کور یا کسی قسم کی مارکیٹنگکے لئے ڈیزائن میں سات باتوں کا ہونا لازمی ہے۔ Belong, Reflects, Attract, Include, Promise, provoke, Sell. یہ بھی بتاتی چلوں کہ مخلتف شرکا کے مختلف پروجیکٹس تھے جیسے کہ دعوت نامہ تیار کرنا، پروشر، فلائرز وغیرہ۔ اور اِن سب کے کور ڈیزائن میں مندرجہ بالا سات باتوں کا ہونا لازمی ہے۔ آسٹریلین ٹرینر نے سب سے زیادہ جس بات پر زور دیا وہ Include اور Promise تھا۔ میرے لئے یہ دونوں پوائنٹس نئے تھے۔ Include کا مطلب کہ ایسا ڈیزائن ہو جس میں آپ کی ٹارگٹ آڈیئنس شامل ہوں۔ جیسا کہ میرا پروجیکٹ چائلڈ ابیوز پر والدین کے لئے ایک ہینڈ بک گائیڈ کا کور تیار کرنا تھا۔ اور سب ٹائٹل ’’آپ کیسے اپنے بچوں کو جنسی حملوں کے خطے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں‘‘ تھا۔ اب اِس سب ٹائٹل میں براہِ راست والدین کو Include کیا گیا تھا۔ مثبت انداز میں۔ اِسی طرح Promise بھی کتاب کے ٹائٹل میں تھا ’’خوف سے آزادی تک‘‘ جس کے ساتھ ایک تصویر کہ ایک ماں اپنے بیٹے یا بیٹی کو گلے لگا رہی ہے اور بچہ مطمئن ہے۔ تصریور کے پسِ منظر میں گراونڈ ہیں اور سورج کی کرینیں ماں بچے پر پڑ رہی ہیں۔ گھاس کا سبز اور سورج کی کرنوں کا زرد گولڈن رنگ امید اور Promise کو ظاہر کر رہا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ آپ کے ڈیزائن اور سب ٹائٹل میں Include اور Promise جتنا زیادہ واضح اور جاندار ہو گا آپ کی مارکٹنگ اتنی ہی زیادہ بہتر ہو گی۔ اُس وقت تو میں نے زیادہ غور نہ کیا لیکن کریم ایڈ اور اُس پر اعتراضات کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ ایک آسٹریلین اِس بات پر زور دے رہا تھا کہ اپنے کلچر کے مطابق ڈئزاین کریں اور الفاظ کا چناو بھی آپ کی تہذیب کے مطابق ہونا چاہئے۔ اسے ایڈورٹائزنگ اخلاقیات بھی کہا جا سکتا ہے۔ اب اگر کریم ایڈ کی بات کی جائے تو اِس میں Include اور Promise منفی تاثر دیتا ہے۔ اِس لئے میں اِس ایڈ کو منفی مارکیٹنگ کہوں گی جو ہماری تہذیب اور کلچر کے مطابق نہیں ہیں۔ یہ بات بھی عجیب ہے کہ کریم بزنس کر رہی ہے معاشرے کی اخلاقیات کی نوک پلک اُس کا کام نہیں ہے۔ اور اگر کریم ریاست کے اخلاقی معاملات میں پڑنا چاہتی ہے تو بغاوت اور انقلاب میں فرق کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر میں یہی کہوں گی کہ کریم بزنس کمپنی ہے اِس کو بزنس کرنا چاہئے یا سوشل ورک جو وہ کر رہی ہے۔