یوم پاکستان اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پہچان

احمد جمیل یوسفزئی

تحریک آذادی ہند کے ایک نوجوان مگر توانا کردار اور برصغیر کی تاریخ کے عظیم انقلابی شہید بھگت سنگھ (جن کا یوم شہادت 23 مارچ 1931 ہے) نے کہ تھا، “انقلاب میں خونی کشمکش ضروری نہیں اور نہ ہی اس میں ذاتی انتقام کے لئے کوئی جگہ ہے. یہ بم اور پستول کے لئے جنون کا نام بھی نہیں. انقلاب سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ موجودہ نظام، جو کھلی ناانصافی پر مبنی ہے، کو تبدیل ہونا چاہیے”.
گو کہ ہر سال 23 مارچ کو یوم پاکستان کی مناسبت سے منایا جاتا ہے، لیکن ہر سال کی طرح کل کی تقریبات بھی کچھ مختلف نہیں تھی. اسلام آباد طیاروں کی گھن گرج سے گونجتا رہا، ہتھیاروں کی نمائش ہوتی رہی، اور ٹی وی چینلز اس بار بھی اس “مملکت خداداد پاکستان” کے باسیوں کے حقیقی مسائل پہ بات کرنے اور عوامی شعور اجگر کرنے کی بجائے، اسلحے کی نمائش، صدر و وزیر اعظم کے روایتی تقاریر اور مہمان خصوصی (اس دفعہ ملائشین وزیر اعظم مہاتیر محمد) کی پاکستان کی تعریفیں دکھاتا رہا.
دوسری طرف سندھ کا ایک لاچار، غریب اور بے بس چاک گریبان باپ اپنی اغواہ شدہ بیٹیوں رینہ اور روینہ کے زبردستی تبدیلی مذہب پر پولیس تھانے کے سامنے بیٹھ کے دہائیاں دیتا رہا، کوئٹہ میں پریس کلب کے ساتھ ماما قدیر پچھلے 9 سالوں سے مسلسل اس سال بھی جبری لاپتہ بلوچ نوجوانوں کی بازیابی کے لئے لگائے گئے کیمپ میں ان کے بازیابی کی آس لگائے دوزاونوں بیٹھا رہا، جنوبی وزیرستان کے تحصیل سراروغہ کے کوٹکئی کی 9 سالہ ننھی سارا دو دن پہلے لینڈمائن کے دھماکے میں دونوں آنکھوں اور بازو سے محرومی اور چہرے کے بگڑ جانے کے بعد دوسرے کئی سو بے گناہ بچوں اور مردوں وخواتین کی طرح یہ سوچتی رہی کہ اس کا کیا قصور تھا، کیا اُس کی تحفظ کے نام پہ بنی ریاست اسے تحفظ دینے میں ناکام نہیں ہوئی؟ بکاخیل آئی ڈی پیز کیمپ میں سالوں سے بے آسرہ پڑے خاندان اس سال بھی عزت سے گھروں کو لوٹ جانے کی آس لئے بیٹھے رہے، اور بلوچستان کے پختون علاقے سنجاوی میں دہشتگردی میں قتل کئے گئے چھ بے گناہ لیویز اہلکاروں کے اہلخانہ ہزاروں دیگر بے گناہ مارے جانے والوں کے پیاروں کی طرح اس لئے یوم پاکستان نہ منا سکے کہ ان کے جگر گوشے ان سے چھین لئے گئے اور کسی نے پلٹ کر خبر بھی نہ لی اور نہ انصاف کی کوئی امید باقی ہے!آزادی کے اُناسی سال گزرنے کے بعد بھی ہم تاریخ کے اس دہرائے پر کھڑے ہیں جہاں نہ ہمیں ہماری پہچان پتہ ہے، نہ ہم آزادی کی اصل روح سے آگاہ ہیں اور نہ سکون اور امن کی زندگی میسر ہے. کیا ہم (بلوچ، بختون، سندھی، سرائیکی، مہاجر اور پنجابیوں) نے اس لئے یہ ملک لیا تھا کہ کئی عشرے بعد پاکستان اس طرح پہچان جائے کہ یہ؛
1. وہ ملک ہے جہاں ہندو لڑکیوں کو اغواء کر کے زبردستی مذہب بدلوایا جاتا اور شادی کرائی جاتی ہے.2. وہ ملک ہے جہاں دہشتگرد دن دھاڑے انسانوں کو قتل کرتے، قومی میڈیا ان کا بیانیہ بیان کرتا، اور عوام کی بڑی تعداد ان کو اسلام کا خیرخواہ مانتی ہیں.3. وہ ملک ہے جہاں ہزاروں بے گناہ شہریوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے والے احسان اللّہ احسان کو ٹی وی پہ لا کہ اس کا انٹرویو لیا جاتا ہے، اس کو نیک نام پیش کیا جاتا ہے، اور اس پہ دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے سزا دینے کی بجائے مہمان بنا کے رکھا جاتا ہے. جب کہ اس کے برعکس آئین و قانون کی بات کرنے والے پرامن شہریوں کو اپنی بات اپنے ہی ملک کے میڈیا پہ رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور ان کے خلاف پرپگینڈہ کیا جاتا ہے.4. وہ ملک ہے جو جن انتہا پسند اور عالمی دہشتگردوں کی وجہ سے بدنام ہے وہاں اُنھی کو “پروٹیکٹیو کسٹڈی” میں لے کے ان کی حفاظت کی جاتی ہے.5. وہ ملک ہے جہاں ہزاروں بلوچ، پختون، سندھی اور مہاجر شہریوں کو مہینوں اور سالوں سے جبری لاپتہ کیا گیا ہے مگر ان کا پوچھنے والا کوئی نہیں. حتیٰ کہ ملک کی سب سے اعلٰی عدالت بھی بے بس ہے. اور جو جو ان کے لئے (پرامن) آواز اٹھاتا ہے وہ اپنی زندگی داو پہ لگاتا ہے.6. وہ ملک ہے جہاں آئین و قانون کی بات آپ کو غدار، اور حقوق کی بات ہندوستان، اسرائیل، امریکہ، افغانستان اور پتہ نہیں کہاں کہاں کا ایجنٹ بنا دیتی ہے.7. وہ ملک ہے جہاں حقیقی عوامی تحریکوں کو سمجھنے اور ان کے مطالبات کو خلوص دل سے ماننے کی بجائے ان کے خلاف ہر ممکن طریقے سے پرپگینڈہ کیا جاتا ہے اور شہریوں کا ریاست پر سے اعتماد مذید کمزور کیا جاتا ہے تاکہ وہ مشتعل ہو اور ان کے خلاف طاقت کا استعمال کر کے ان کو کچلا جاسکے.8. وہ ملک ہے جہاں حب الوطنی کا مطلب اپنے بارے میں بے جا جذباتیت اور ہمسایہ ممالک سے بے مقصد نفرت ہے.9. وہ ملک ہے جہاں زمین عوام سے ذیادہ مقدم ہے اور اسی لئے عوام (پختون، بلوچ، سندھی اور مہاجر وغیرہ) مر رہے ہیں یا ان کو مارا جا رہا ہے مگر ان کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرکے ان کے مسائل کا پرامن حل نہیں ڈھونڈا جا رہا.10. وہ ملک ہے جہاں ملک کے حقیقی واکداران جان بوجھ کر سیاست، جمہوریت، جمہوری ادارے، پارلیمنٹ اور عوامی رائے کو بدنام کرکے عوام کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتے اور ان سے نفرت کراتے ہیں.11. وہ ملک ہے جہاں تعلیم کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے، سوال کرنے کو بدتمیزی اور جواب مانگنے کو گستاخی سمجھا جاتا ہے.12. وہ ملک ہے جہاں کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے لوگوں کو دن دھاڑے قتل کیا جاتا ہے، سینکڑوں چیک پوسٹوں کے باوجود ہر بار ٹرگٹ کلرز اور دہشتگرد باآسانی فرار ہوتے ہیں. جہاں چیف آف آرمی سٹاف کی اپنے لوگوں کے قتل عام کی طرف توجہ دلانے کے لئے ایک بیٹی کو بھوک ہڑتال کرنی پڑتی ہے.13. وہ ملک ہے جہاں حکومت کے اپنے اور سیکیورٹی اداروں کی ناکامی کو تسلیم کرنے کی بجائے ہر دہشتگرد حملے کو فوراً کسی ہمسایہ ملک کے کھاتے میں ڈال کر ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کا فن کمال عروج کو پہنچا دیا گیا ہے.14. وہ ملک جہاں توہین مذہب کے نام پہ ایک گارڈ گورنر کو؛ نوجوان دوست، کلاس فیلوز اور یونیورسٹی انتظامیہ ایک ہونہار طالبعلم کو تشدد کر کے اور ایک شاگرد اپنے استاد کو قتل کرتا ہے اور اس قتال کی حمایت نظر آتی ہے.15. وہ ملک ہے جہاں کا ایک پولیس افسر چار سو چوالیس شہریوں کو گاجر مولی سمجھ کے مارتا اور قانونی نظام اس کو سزا دینے کی بجائے بے بس تماشائی بنا دیکھتا رہتا ہے.16. وہ ملک ہے جہاں شہریوں کی حفاظت کرنے والے پولیس افسر کو سیف سٹی مانے جانے والے اسلام آباد سے دن دھاڑے اغواء کیا جاتا ہے، کئی سو کلومیٹر دور اور کئی درجن سیکیورٹی چیک پوسٹوں سے گزارا جاتا ہے اور پاک افغان بارڈر پہ اس کی تشدد ذدہ لاش پھینکی جاتی ہے اور سیکیورٹی ادارے بے بس ہوتے ہیں. مہینوں گزر جاتے ہیں اور انصاف فراہم کرنے کے وعوں کے باوجود حکومت انکھ کان بند کر لیتی ہے. 17. وہ ملک ہے جہاں تحفظ کی قسم کھانے والے ایک پرامن انسانی حقوق کے کارکن اور پروفیسر کو دن دھاڑے دوستوں کے سامنے قتل کرتے ہیں اور اس قتل کی گواہوں کی موجودگی اور پرزور عوامی احتجاج کے باوجود ایف آئی آر تک درج نہیں ہونے دی جاتی، حتٰی کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹہ برائے انسانی حقوق کا حکم بھی بے سود ثابت ہوتا ہے.18. وہ ملک ہے جہاں قتل کئے گئے شہریوں کو انصاف کی فراہمی تو درکنار الٹا ان کے جنازے میں شرکت سے لوگوں کو روکا جاتا ہے.19. وہ ملک ہے جس کے ایک حصے (سابقہ فاٹا) میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں چودہ سال تک گیارہ فوجی آپریشنز کئے جاتے ہیں. ہزاروں لوگ جان سے جاتے اور لاکھوں بے گھر ہوتے ہیں. ان کے کاروبار تباہ ہوتے اور ان کا پورہ سماجی نظام درہم برہم ہوتا ہے مگر مجال ہے جو قومی میڈیا پر مارے جانے والے دہشتگردوں کی تفصیلات، یا شہید ہونے والے عام لوگوں اور ان کو پہنچے نقصان کی بات ان پندرہ سالوں میں ایک بار بھی کی گئی ہو. ہاں ایسا ضرور ہوا کہ طالبان کے نام سے جانے جانے والے دہشتگردوں کا بیانیہ کئی بار نشر کیا گیا.20. وہ ملک ہے جہاں کم عمر بچیوں کے ساتھ ذیادتی کی جاتی ہے، لڑکیوں پر تیل چھڑک کے زندہ جلایا جاتا ہے، نوجوان لڑکیوں کو برہنہ پریڈ کروایا جاتا ہے، لڑکوں کو لڑکیوں پر بے جا برتری دی جاتی ہے، غیرت کے نام پہ کوئی بھی منہ اٹھا کے بہن اور بیٹی کو قتل کر دیتا ہے اور ریاست سوئی رہتی ہے، اس معاشرے میں خوتین کو اپنی بات کرنے کے لئے کوئی پلیٹ فارم نہیں جہاں وہ اپنے مسائل پہ بحث کر سکیں. اور پھر ان مسائل کو سنجیدہ لینے کی بجائے اس بات پر بحث ہوتی ہے کہ “عورت مارچ” میں غلط کیا ہے. 21. وہ ملک ہے جہاں ایک خاص طبقہ اور ایک خاص نقطہ نظر کے ماننے والوں کے علاوہ باقی سب کو یا تو جاھل اور یا کسی دوسرے ملک کے مخبر سمجھا اور مانا جاتا ہے.
جناب والٰی! اگر گستاخی اور بد تمیزی نہ ہو تو سوال یہ ہے کہ وہ معصوم یوم پاکستان کیسے منائیں جو بے گناہ قتل کر دئے گئے؛ یا وہ جو جبری لاپتہ کر دئے گئے اور جن کا کچھ اتا پتہ نہیں؛ وہ جن کو ماورائے عدالت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا؛ وہ جن کو اس لئے راستے سے ہٹایا گیا کیوں کہ وہ اختلاف رائے رکھتے تھے؛ وہ غمزدہ آنکھیں جو اپنے لاپتہ پیاروں کے آنے کی آس لئے دروازے کو ٹکٹکی باندھ کے دیکھتی رہتی ہیں؛ وہ جو تبدیلی چاہتے تھے اور اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے تھے مگر وہ رہے نہیں؛ وہ ہندو لڑکیاں جن کو اغواہ کیا گیا اور انھوں نے موت کے خوف سے مذہب تبدیل کرنا گوارہ کر لیا اور بوڑھوں سے بیا دی گئیں؛ وہ مذہبی اقلیتیں جو توہین مذہب کے الزام کے ڈر سے خوف کے سائے میں زندگی گزار رہی ہیں؛  وہ جنہوں نے بھوک اور عزت کے تارتار ہونے کے خوف سے خود کشی کرلی؛ وہ جن کے لئے بنیادی ضرورتوں کا حصول بھی ایک خواب بن کے رہ گیا ہے؛ اور وہ جو بنیادی حقوق مانگنے کی پاداش میں جیلوں کی کال کوٹھڑیوں میں زندگی کے شب وروز گن رہے ہیں.
شائد اب بھی ہمیں بہت لمبا راست طے کرنا ہے کہ جب ہم اس قابل ہوں کہ آذادی کے مطلب اور روح کو سمجھ سکیں اور حقیقی معنوں میں یوم پاکستان منا سکیں!

تحریک آذادی ہند کے ایک نوجوان مگر توانا کردار اور برصغیر کی تاریخ کے عظیم انقلابی شہید بھگت سنگھ (جن کا یوم شہادت 23 مارچ 1931 ہے) نے کہا تھا، “انقلاب میں خونی کشمکش ضروری نہیں اور نہ ہی اس میں ذاتی انتقام کے لئے کوئی جگہ ہے. یہ بم اور پستول کے لئے جنون کا نام بھی نہیں. انقلاب سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ موجودہ نظام، جو کھلی ناانصافی پر مبنی ہے، کو تبدیل ہونا چاہیے”.
گو کہ ہر سال 23 مارچ کو یوم پاکستان کی مناسبت سے منایا جاتا ہے، لیکن ہر سال کی طرح کل کی تقریبات بھی کچھ مختلف نہیں تھی. اسلام آباد طیاروں کی گھن گرج سے گونجتا رہا، ہتھیاروں کی نمائش ہوتی رہی، اور ٹی وی چینلز اس بار بھی اس “مملکت خداداد پاکستان” کے باسیوں کے حقیقی مسائل پہ بات کرنے اور عوامی شعور اجاگر کرنے کی بجائے، اسلحے کی نمائش، صدر و وزیر اعظم کے روایتی تقاریر اور مہمان خصوصی (اس دفعہ ملائشین وزیر اعظم مہاتیر محمد) کی پاکستان کی تعریفیں دکھاتے رہے.
دوسری طرف سندھ کا ایک لاچار، غریب اور بے بس چاک گریبان ہندو باپ اپنی اغواہ شدہ بیٹیوں رینہ اور روینہ کے زبردستی تبدیلی مذہب پر پولیس تھانے کے سامنے بیٹھ کے دہائیاں دیتا رہا؛ کوئٹہ میں پریس کلب کے ساتھ ماما قدیر پچھلے 9 سالوں سے مسلسل اس سال بھی جبری لاپتہ بلوچ نوجوانوں کی بازیابی کے لئے لگائے گئے کیمپ میں ان کے بازیابی کی آس لئے دو زاونوں بیٹھا رہا؛ جنوبی وزیرستان کے تحصیل سراروغہ کے کوٹکئی کی 9 سالہ ننھی سارا دو دن پہلے لینڈمائن کے دھماکے میں دونوں آنکھوں اور بازو سے محرومی اور چہرے کے بگڑ جانے کے بعد دوسرے کئی سو بے گناہ بچوں اور مردوں وخواتین کی طرح یہ سوچتی رہی کہ اس کا کیا قصور تھا، کیا اُس کی تحفظ کے نام پہ بنی ریاست اسے تحفظ دینے میں ناکام نہیں ہوئی؟ بکاخیل آئی ڈی پیز کیمپ میں سالوں سے بے آسرہ پڑے خاندان اس سال بھی عزت سے گھروں کو لوٹ جانے کی آس لئے بیٹھے رہے؛ اور بلوچستان کے پختون علاقے سنجاوی میں دہشتگردی میں قتل کئے گئے چھ بے گناہ لیویز اہلکاروں کے اہلخانہ ہزاروں دیگر بے گناہ مارے جانے والوں کے پیاروں کی طرح اس لئے یوم پاکستان نہ منا سکے کہ ان کے جگر گوشے ان سے چھین لئے گئے اور کسی نے پلٹ کر خبر بھی نہ لی اور نہ انصاف کی کوئی امید باقی ہے!آزادی کے ستر سال سے بھی ذیادہ گزرنے کے بعد بھی ہم تاریخ کے اس دہرائے پر کھڑے ہیں جہاں نہ ہمیں ہماری پہچان پتہ ہے، نہ ہم آزادی کی اصل روح سے آگاہ ہیں اور نہ سکون اور امن کی زندگی میسر ہے. کیا ہم (بلوچ، بختون، سندھی، سرائیکی، مہاجر اور پنجابیوں) نے اس لئے یہ ملک لیا تھا کہ کئی عشرے بعد پاکستان اس طرح پہچانا جائے کہ یہ؛
1. وہ ملک ہے جہاں ہندو لڑکیوں کو اغواء کر کے زبردستی مذہب بدلوایا اور شادی کرائی جاتی ہے.2. وہ ملک ہے جہاں دہشتگرد دن دھاڑے انسانوں کو قتل کرتے ہیں، قومی میڈیا ان کا بیانیہ بیان کرتا ہے، اور عوام کی بڑی تعداد ان کو اسلام کا خیرخواہ مانتی ہیں.3. وہ ملک ہے جہاں ہزاروں بے گناہ شہریوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے والے احسان اللّہ احسان کو ٹی وی پہ لا کہ اس کا انٹرویو لیا جاتا ہے، اس کو نیک نام بنا کے پیش کیا جاتا ہے، اور اس پہ دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے سزا دینے کی بجائے مہمان بنا کے رکھا جاتا ہے. جب کہ اس کے برعکس آئین و قانون کی بات کرنے والے پرامن شہریوں کو اپنی بات اپنے ہی ملک کے میڈیا پہ رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور ان کے خلاف پرپگینڈہ کیا جاتا ہے. ایف آئی آرز کاٹی جاتی ہیں اور جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے.4. وہ ملک ہے جو جن انتہا پسند اور عالمی دہشتگردوں کی وجہ سے بدنام ہے وہاں اُنھی کو “پروٹیکٹیو کسٹڈی” میں لے کے ان کی حفاظت کی جاتی ہے.5. وہ ملک ہے جہاں ہزاروں بلوچ، پختون، سندھی اور مہاجر شہریوں کو مہینوں اور سالوں سے جبری لاپتہ کیا گیا ہے مگر ان کا پوچھنے والا کوئی نہیں. حتیٰ کہ ملک کی سب سے اعلٰی عدالت بھی بے بس ہے. اور جو بھی ان کے لئے (پرامن) آواز اٹھاتا ہے وہ اپنی زندگی داو پہ لگاتا ہے.6. وہ ملک ہے جہاں آئین و قانون کی بات آپ کو غدار، اور حقوق کی بات ہندوستان، اسرائیل، امریکہ، افغانستان اور پتہ نہیں کہاں کہاں کا ایجنٹ بنا دیتی ہے.7. وہ ملک ہے جہاں حقیقی عوامی تحریکوں کو سمجھنے اور ان کے مطالبات کو خلوص دل سے ماننے کی بجائے ان کے خلاف ہر ممکن طریقے سے پرپگینڈہ کیا جاتا ہے اور شہریوں کا ریاست پر سے اعتماد مذید کمزور کیا جاتا ہے تاکہ وہ مشتعل ہو اور ان کے خلاف طاقت کا استعمال کر کے ان کو کچلا جاسکے.8. وہ ملک ہے جہاں حب الوطنی کا مطلب اپنے بارے میں بے جا جذباتیت اور ہمسایہ ممالک سے بے مقصد نفرت ہے.9. وہ ملک ہے جہاں زمین عوام سے ذیادہ مقدم ہے اور اسی لئے عوام (پختون، بلوچ، سندھی اور مہاجر وغیرہ) مر رہے ہیں یا ان کو مارا جا رہا ہے مگر ان کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرکے ان کے مسائل کا پرامن حل نہیں ڈھونڈا جا رہا.10. وہ ملک ہے جہاں ملک کے حقیقی واکداران جان بوجھ کر سیاست، جمہوریت، جمہوری اداروں، پارلیمنٹ اور عوامی رائے کو بدنام کرکے عوام کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتے اور ان سے نفرت کراتے ہیں.11. وہ ملک ہے جہاں تعلیم کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے، سوال کرنے کو بدتمیزی اور جواب مانگنے کو گستاخی سمجھا جاتا ہے.12. وہ ملک ہے جہاں کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے لوگوں کو دن دھاڑے قتل کیا جاتا ہے، سینکڑوں چیک پوسٹوں کے باوجود ہر بار ٹرگٹ کلرز اور دہشتگرد باآسانی فرار ہوتے ہیں. جہاں چیف آف آرمی سٹاف کی اپنے لوگوں کے قتل عام کی طرف توجہ دلانے کے لئے ایک بیٹی کو بھوک ہڑتال کرنی پڑتی ہے.13. وہ ملک ہے جہاں حکومت کے اپنے اور سیکیورٹی اداروں کی ناکامی کو تسلیم کرنے کی بجائے ہر دہشتگرد حملے کو فوراً کسی ہمسایہ ملک کے کھاتے میں ڈال کر ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کا فن کمال عروج کو پہنچا دیا گیا ہے.14. وہ ملک جہاں توہین مذہب کے نام پہ ایک گارڈ گورنر کو؛ نوجوان دوست، کلاس فیلوز اور یونیورسٹی انتظامیہ ایک ہونہار طالبعلم کو تشدد کر کے اور ایک شاگرد اپنے استاد کو قتل کرتا ہے اور اس قتال کی حمایت نظر آتی ہے.15. وہ ملک ہے جہاں کا ایک پولیس افسر چار سو چوالیس شہریوں کو گاجر مولی سمجھ کے مارتا ہے اور قانونی نظام اس کو سزا دینے کی بجائے بے بس تماشائی بنا دیکھتا رہتا ہے.16. وہ ملک ہے جہاں شہریوں کی حفاظت کرنے والے پولیس افسر کو سیف سٹی مانے جانے والے اسلام آباد سے دن دھاڑے اغواء کیا جاتا ہے، کئی سو کلومیٹر دور اور کئی درجن سیکیورٹی چیک پوسٹوں سے گزارا جاتا ہے اور پاک افغان بارڈر پہ اس کی تشدد ذدہ لاش پھینکی جاتی ہے اور سیکیورٹی ادارے بے بس ہوتے ہیں. مہینوں گزر جاتے ہیں اور انصاف فراہم کرنے کے دعوؤں کے باوجود حکومت انکھ اور کان بند کر لیتی ہے. 17. وہ ملک ہے جہاں شہریوں کے تحفظ کی قسم کھانے والے ایک پرامن انسانی حقوق کے کارکن اور پروفیسر کو دن دھاڑے دوستوں کے سامنے قتل کرتے ہیں اور اس قتل کی گواہوں کی موجودگی اور پرزور عوامی احتجاج کے باوجود ایف آئی آر تک درج نہیں ہونے دی جاتی، حتٰی کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹہ برائے انسانی حقوق کا حکم بھی بے سود ثابت ہوتا ہے.18. وہ ملک ہے جہاں قتل کئے گئے شہریوں کو انصاف کی فراہمی تو درکنار الٹا ان کے جنازے میں شرکت سے لوگوں کو روکا جاتا ہے.19. وہ ملک ہے جس کے ایک حصے (سابقہ فاٹا) میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں چودہ سال تک گیارہ فوجی آپریشنز کئے جاتے ہیں. ہزاروں لوگ جان سے جاتے اور لاکھوں بے گھر ہوتے ہیں. ان کے کاروبار تباہ ہوتے اور ان کا پورہ سماجی نظام درہم برہم ہوتا ہے مگر مجال ہے جو قومی میڈیا پر مارے جانے والے دہشتگردوں کی تفصیلات، یا شہید ہونے والے عام لوگوں اور ان کو پہنچے نقصان کی بات ان پندرہ سالوں میں ایک بار بھی کی گئی ہو. ہاں ایسا ضرور ہوا کہ طالبان کے نام سے جانے جانے والے دہشتگردوں کا بیانیہ کئی بار نشر کیا گیا.20. وہ ملک ہے جہاں کم عمر بچیوں کے ساتھ ذیادتی کی جاتی ہے، لڑکیوں پر تیل چھڑک کے زندہ جلایا جاتا ہے، نوجوان لڑکیوں کو برہنہ پریڈ کروایا جاتا ہے، لڑکوں کو لڑکیوں پر بے جا برتری دی جاتی ہے، غیرت کے نام پہ کوئی بھی منہ اٹھا کے بہن اور بیٹی کو قتل کر دیتا ہے اور ریاست سوئی رہتی ہے، اس معاشرے میں خواتین کو اپنی بات کرنے کے لئے کوئی پلیٹ فارم نہیں جہاں وہ اپنے مسائل پہ بحث کر سکیں. اور پھر ان مسائل کو سنجیدہ لینے کی بجائے اس بات پر بحث ہوتی ہے کہ “عورت مارچ” میں غلط کیا ہے. 21. وہ ملک ہے جہاں ایک خاص طبقہ اور ایک خاص نقطہ نظر کے ماننے والوں کے علاوہ باقی سب کو یا تو جاھل اور یا کسی دوسرے ملک کے مخبر سمجھا اور مانا جاتا ہے.
جناب والٰی! اگر گستاخی اور بد تمیزی نہ ہو تو سوال یہ ہے کہ وہ معصوم یوم پاکستان کیسے منائیں جو بے گناہ قتل کر دئے گئے؛ یا وہ جو جبری لاپتہ کر دئے گئے اور جن کا کچھ اتا پتہ نہیں؛ وہ جن کو ماورائے عدالت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا؛ وہ جن کو اس لئے راستے سے ہٹایا گیا کیوں کہ وہ اختلاف رائے رکھتے تھے؛ وہ غمزدہ آنکھیں جو اپنے لاپتہ پیاروں کے آنے کی آس لئے دروازے کو ٹکٹکی باندھ کے دیکھتی رہتی ہیں؛ وہ جو تبدیلی چاہتے تھے اور اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے تھے مگر وہ رہے نہیں؛ وہ ہندو لڑکیاں جن کو اغواہ کیا گیا اور انھوں نے موت کے خوف سے مذہب تبدیل کرنا گوارہ کر لیا اور بوڑھوں سے بیا دی گئیں؛ وہ مذہبی اقلیتیں جو توہین مذہب کے الزام کے ڈر سے خوف کے سائے میں زندگی گزار رہی ہیں؛  وہ جنہوں نے بھوک اور عزت کے تارتار ہونے کے خوف سے خود کشی کرلی؛ وہ جن کے لئے بنیادی ضرورتوں کا حصول بھی ایک خواب بن کے رہ گیا ہے؛ اور وہ جو بنیادی حقوق مانگنے کی پاداش میں جیلوں کی کال کوٹھڑیوں میں زندگی کے شب وروز گن رہے ہیں.
شائد اب بھی ہمیں بہت لمبا راستہ طے کرنا ہے کہ جب ہم اس قابل ہوں کہ آذادی کے مطلب اور روح کو سمجھ سکیں اور حقیقی معنوں میں یوم پاکستان منا سکیں!