22 کروڑ غدار
وقاص احمد
ہے ناں مزے کی بات؟؟ ہم کہاں سے چلے تھے اور آج ماشاءاللہ ترقی کرتے کرتے کہاں پہنچ گئے۔ قیام پاکستان کے وقت اور اس کے فوراً بعد ہمارے ہاں غدار ناپید تھے۔ خیر اب یہ ایک جملہِ معترضہ بھی ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ غدار اس وقت بھی موجود ہوں لیکن غداری کا سرٹیفیکیٹ جاری کرنے والی certifying agency موجود نہیں تھی۔
بہرحال ہر دو صورت میں ہمارے ہاں غدار ناپید تھے۔ اس جنس کی عدم موجودگی انتہائی تشویشناک تھی کیونکہ ملکی “ترقی” اور “عظیم تر قومی مفاد” میں ایک غدار کا ہونا اشد ضروری تھا۔ ظاہر ہے کہ جب غدار ولن نہیں ہوگا تو محب الوطن ہیرو کی کیا گنجائش۔ فلم میں ہیرو سے پہلے انٹری تو ولن ہی کی ہوتی ہے ناں۔ تو اسی نازک صورتحال کو بھانپتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح نے قربانی دی اور قوم کے “وسیع تر مفاد” میں پہلی غدار ہونے کا شرف حاصل کیا۔ ملک میں “سکیورٹی” کی اہمیت کو پہچانتے ہوئے غداری کے ساتھ سکیورٹی رسک کا تمغہ بھی محترمہ نے خود ہی پہن لیا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے تحریک پاکستان کی کئی نامی گرامی شخصیات نے نومولود ملک کی خاطر قربانی دیتے ہوئے غداری کا بلا اپنے سینوں پر سجایا تاکہ “محب الوطن ہیروز” یکسوئی سے “وسیع تر قومی مفاد” کی خدمات سرانجام دیتے چلیں۔
لیاقت علی خان فاطمہ جناح اور ان کے بےلوث ساتھیوں کے گزر جانے کے بعد محب الوطن افراد نے بہت شدت سے محسوس کیا کہ قوم میں قربانی کا جذبہ بتدریج کم ہورہا ہے۔ کوئی رضاکارانہ طور پر غدار بننے کو تیار ہی نہیں تھا۔ اوپر سے ملک ایوب خان کی سربراہی میں ترقی کے ایسے دوراہے پر کھڑا تھا جہاں زیادہ سے زیادہ غدار افراد کی ضرورت تھی۔ سو اس بار شخصیات تک محدود نہیں رہا گیا۔ زور زبردستی اور گولی ڈنڈے کے زور پر پوری کی پوری بنگالی قوم کو غدار قرار دے دیا گیا۔ ان کے “نسلیں بدل دینے” کے نعرے لگائے گئے۔ بنگالی زرا غصے کے تیز اور عقل سے پیدل تھے۔ انہوں نے یوں بنا بتائے سمجھائے غدار قرار دیے جانے کو دل پر ہی لے لیا اور محب الوطن افراد کی”خلوص نیت” کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنا الگ ملک بنا کر بیٹھ گئے۔
محب الوطن طبقے کی سبکی تو بہت ہوئی لیکن “ملک و قوم” کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کرتے ہوئے وہ پھر غدار بنانے کی مشق میں جت گئے۔ اس دفعہ بلوچستان کے بلوچوں کی باری تھی۔ بلوچوں کو بھی غدار قرار دے دیا گیا۔ پھر سندھی قوم پرستوں کی باری آئی اور سندھی بھی غدار قرار دے دیے گئے۔ پھر باری آئی کراچی کے اردو سپیکنگ طبقے کی، اردو سپیکنگ مہاجر بھی غدار قرار دے دیے گئے۔ پھر باری آئی فاٹا پختونخوا میں بیٹھے پٹھان کی۔ اس کو بھی افغانی قرار دیکر غدار کہہ دیا گیا۔
اس 60-70 سالہ مشق میں محب الوطن پارٹی کے ہمنواؤں کا ایک ایسا طبقہ تھا جو محب الوطن پارٹی کی محبت میں غداروں کو چیخ چیخ کر گالیاں کوسنے اور طعنے مارتا رہا لیکن ظاہر ہے 1948 سے لیکر 2015 تک جیسے جیسے غداروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا، محب الوطن پارٹی کے سپورٹران کم ہوتے چلے گئے۔
3-4 سال پہلے محب الوطن پارٹی نے محسوس کیا کہ اعلانیہ غدار وطن افراد کی تعداد اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب گھر میں سے قربانی کا بکرا ڈھونڈنا پڑے گا تاکہ “گلشن کا کاروبار” یونہی چلتا رہے۔
اب کی بار قرعہ فال نکلا ہے پنجابیوں کے نام۔ سو اب پچھلے ایک سال سے پنجابی بھی غدار۔ جوں جوں غداروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے توں توں جمہوریت سے نفرت بڑھتی جارہی ہے۔ کیونکہ محب الوطن دال تو پہلے بھی بنا “پریشر” گلتی نہیں تھی اور اب تو کل ملا کر صورتحال کچھ یوں ہے کہ بنگالی، بلوچی، اردو سپیکنگ مہاجر، سندھی، پٹھان اور پنجابی سبھی دوسری طرف کھڑے ہیں اور اپنے حصے میں ہیں کچھ ستارے، کچھ تمغے، کچھ چمچے، کچھ کڑچھے، کچھ بیٹمین، کچھ زید حامد، کچھ حافظ سعید اور کچھ احسان اللہ احسان۔
ابن انشاء “اردو کی آخری کتاب” میں مہابھارت کے بارے لکھتے ہیں کہ جنگ میں ایک طرف کورو تھے اور ایک طرف پانڈو، ظاہر ہے اگر دونوں ایک ہی طرف ہوتے تو جنگ کیسے ہوتی۔ اب مجھ سمیت تمام “محبان وطن” بھی اسی فکر میں غلطاں ہیں کہ اگر سبھی غدار ہوگئے تو حب الوطنی کی پھکی کس کو بیچیں گے۔ کیونکہ وہ دور آیا ہی کھڑا ہے جب اس ملک میں لگ بھگ 6 لاکھ محب الوطن رہ جانے ہیں اور باقی سب غدار۔۔۔ میں تو چشم تصور سے دیکھ کر ہی ہنس ہنس کر دہرا ہورہا ہوں۔ آپ زرا تصور میں لائیے تو سہی, “22 کروڑ غداروں کا ملک”.