ایک سوال ایک تمہید

افشاں نور

ایک ترتیب معلوم کرنی ہے، ترتیب ویسے تو میں خود بھی بناسکتی ہوں لیکن شاید سب کے سامنے یہ سوال رکھنے سے مختلف آرا کے پیش نظر زیادہ اچھی ترتیب بن جائے۔

اور وہ مدعا یہ ہے کہ ’بہتر‘ اسلامی فرقوں میں سے ہمارے ہاں زیادہ تر معاملہ خراب سنی، شیعہ اور دیو بندیوں ہوتا دیکھا گیا ہے کیونکہ یہ غیر دانستہ سیاسی فرقے سمجھتےجاتے ہیں۔ یا کچھ اور بھی اس سے سوا۔ سوال سے پہلے یہ تمہید ضروری ہے اس لیے عرض ہےکہ جہاں مسلم اور غیر مسلم کے جھگڑے ہیں، وہاں پہلے ان اسلامی فرقوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے۔

راقم کا کوئی فرقہ نہیں نہ کوئی مذہب، وہ انسانیت پر یقین رکھتی ہے اور خدا اور تمام بزرگان دین سے ایک الگ رشتہ اور ایسے ہی میرے بہت سے ساتھی بھی ہیں جو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ ہم لوگوں کے علاوہ جو مذہب اور ان کے دیگر فرقوں پر جینے مرنے کی حد تک یقین رکھتے ہیں، ان سب کو پہلے ایک میدان میں موقع دیا جائے یا تو ان کے ہاتھوں میں ہتھیار دے دیے جائیں اور ایک صحیح فرقے کے نکلنے کا انتظار کیا جائے یا پھر ان کو استدلال کا موقع دیا جائے اور ان سب کے ایک ہونے کا انتظار کیا جائے ( جو کہ بہت مشکل کام ہےاندھی تقلید کی پٹی اترنا۔ وجہ ان سب میں اپنی رائے اور سوچ کی عدم موجودگی ہے۔)

تو اب ان دو راستوں پر چلیں گے کہ یا تو سب مسلم ایک ہوکر غیر مسلم کے خلاف لڑیں گے یا پھر ایک بھی مسلم نہیں بچے گا جو غیر مسلم کو سبق سکھا سکے۔ اب دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ غیر مسلم میں بھی ایسے ہی اندھی تقلید والے مذہبی موجود ہیں اور بہت سے انسانیت پسند انسان بھی موجود ہیں۔

تو کل ملاکر اور ان سب میں خدا نہ خواستہ بچ جانے والے مذھبی لڑیں گے یا استدلال کریں گے۔ لڑیں گے تو کسی بھی ایک کا ہی بچنا مشکل ہے اور استدلال کی بدولت وہ سب بھی ہم انسانیت کے ماروں میں شامل ہوں گے تو بچ جانے والے اکٌا دکٌا انسانیت پرستوں میں جینا مشکل ہوگا۔ وہ یا تو خود کشی کر لے گا یا کر لے گی ( اب ضروری تو نہیں کہ اس کارے خیر میں مرد ہی حصہ لیں اور بچیں اسلامی بہنوں کو بھی ان سب میں شامل رکھا جائے گا وہ بھی یہاں پیش پیش ہیں۔ یعنی۔ ۔۔ !
تو پھر جو میں سوال کرنے والی تھی اس کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔