محمد زادہ اور عمر حیات کے قتل کے محرکات اور ریاستی بے حسی
عابد حسین
اس ملک کے ہر کونے پر مافیا کی حکمرانی ہے۔ مافیا مختلف شکلوں میں موجود ہیں۔ ان مافیوں میں ایک ڈرگ مافیا ہے جو دوسرے تمام مافیوں کی جڑ ہے۔ یہاں ڈرگ سے کمائی جانے والی رقوم دوسرے جگہوں پر استعمال کرکے اپنی طاقت کو دگنا اور چوگنا کیا جاتا ہے۔ ڈرگ سے کمایا جانے والا کالا دھن زیادہ تر سیاست میں سفید کیا جاتا ہے۔
8 نومبر 2021 کی شام درگئی ضلع مالاکنڈ کی ایک خون آشام شام تھی۔ ضلع مالاکنڈ کے گاؤں گڑھی عثمانی خیل میں سوشل ایکٹیوسٹ اور میڈیکل ٹیکنیشن عمر حیات جس وقت اپنے کلینک میں بیٹھا اپنے کاموں میں مگن تھا۔ اسی وقت ایک ٹارگٹ کلر اس کے کلینک میں داخل ہوا اور پستول سے اس پر فائرنگ شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں عمر حیات کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن سینے پر چار گولیاں لگنے کی وجہ سے وہ جانبر نہ ہوسکا۔ گاؤں کی مساجد میں اعلانات کیئے گئے اور گاؤں کے لوگوں نے چپہ چپہ چھان مارا پر ٹارگٹ کلر کہیں نہ ملا۔ عمر حیات کون تھا؟
عمر حیات سابق ڈسٹرکٹ یوتھ کونسلر اور سوشل ایکٹیوسٹ تھا جو ضلعی سطح پر کرپشن، ڈرگ مافیا کے خلاف آواز اٹھاتا تھا۔ علاقے میں آئس اور ہیروئن کا کاروبار عروج پر ہے۔ اس حوالے سے راقم نے بھی سوشل میڈیا اور متبادل کے پلیٹ فارم سے انتظامیہ کی توجہ مبذول کرانے کی حتی الوسع کوشش کی ہے۔ عمر حیات بھی گاوں اور علاقے میں ڈرگز اور لینڈ مافیا کے خلاف سرگرم تھا جس کی قیمت اس کے خون کی شکل میں وصول کی گئی۔ عمر حیات تو جان سے چلا گیا لیکن ہماری حکومت اور انتظامیہ کی بے حسی کسی سے ڈکھی چھپی نہیں رہ سکی۔ اس خون آشام شام بھی گاؤں کے پولیس اسٹیشن، انتظامیہ بشمول اسسٹنٹ و ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنرز ماضی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے وقوعہ پر اس وقت پہنچے جب ٹارگٹ کلر فرار ہوچکا تھا اور مرحوم مقتول بن چکا تھا۔ نامعلوم شخص کے خلاف پرچہ کاٹ دیا گیا اور بس۔
ابھی تمام گاؤں اسی سوگ میں تھا کہ ساتھ والے گاؤں سخاکوٹ سے خبر آئی کہ محمد زادہ آگرہ بھی ٹارگٹ کلنگ میں مارا گیا۔ محمد زادہ کون تھا؟ محمد زادہ بھی ایک سوشل ایکٹیوسٹ اور پیشے کے لحاظ سے سنار تھا۔ وہ سخاکوٹ گاؤں کا رہائشی تھا اور سخاکوٹ بازار ضلع مالاکنڈ میں اس کی سنار کی دکان تھی۔ محمد زادہ بھی ڈرگ مافیا کے خلاف آواز اٹھاتا تھا۔ اکثر نشے کے عادی افراد کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالتا تھا۔ اخبارات میں خبریں لگواتا تھا کہ علاقے میں آئس اور ہیروئن کی بہتات ہے۔ کھلی کچہریوں میں شامل ہوکر انتظامی آفسران کی توجہ مبذول کروانے کی کوششیں کرتا رہتا تھا۔کئی بار ضلعی انتظامی آفسران کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے جیل بھی بھیجھا گیا- تقریبا تین ہفتے پہلے ہی جامع مسجد درگئی میں ڈپٹی کمشنر ضلع مالاکنڈ کی کھلی کچہری میں محمد زادہ نے پولیس/لیویز اور اسٹنٹ و ڈپٹی کمشنرز کو کھری کھری سنائیں کہ ہماری نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے۔ نشئی افراد کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے جبکہ انتظامیہ خواب غفلت میں غرق ہے۔
مالاکنڈ ڈرگز مافیا کے خلاف ضلعی و تحصیل انتظامیہ سمیت ایم پی اے اور ایم این اے تک بے بس نظر آتے ہیں کیونکہ محمد زادہ کالج کے زمانے سے انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ تھا لیکن ڈرگز مافیا کے خلاف اس کا ساتھ کسی نے نہیں دیا۔ آج محمد زادہ بھی ڈرگز مافیا کے خلاف لڑتے لڑتے زندگی ہار بیٹھا اور عمر حیات کی طرح محمد زادہ کے قتل کا پرچہ بھی نامعلوم ٹارگٹ کلر کے خلاف درج کیا گیا اور گلو خلاصی کی گئی۔ ضلعی انتظامیہ جانتی بھی ہے کہ محمد زادہ شہید ڈرگز مافیا کے خلاف مہم چلا رہا تھا اور انتظامیہ یہ بھی جانتی ہے کہ ضلع مالاکنڈ میں کہاں کس جگہ پر اور کون لوگ ڈرگز بیچتے ہیں۔ ڈرگز ڈیلرز کے اڈے کہاں پر ہیں لیکن بجائے ان لوگوں پر ہاتھ ڈالنے کے صاحب لوگوں نے نامعلوم کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔
یہ سطور قلمبند کرتے ہوئے مجھے عجیب سی گھٹن محسوس ہورہی ہے۔ کیا یہ معاشرہ رہنے کے قابل ہےجہاں چار سو موت کا بسیرا ہے۔ عمر حیات اور محمد زادہ جیسے لوگ معاشرے میں بہت کم یاب ہوتے ہیں۔ جو بغیر کسی لالچ کے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے معاشرے کی اصلاح، ظالم اور مافیاز کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں۔ آج محمد زادہ اور عمر حیات نے اس نظام اور مافیاز سے لڑتے ہوئے اپنی زندگی کھودی اور اپنے پیچھے بیوہ اور چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑے ہیں۔
شہید محمد زادہ اور شہید عمر حیات کا قتل اس ملک کے گلے سڑے نظام، ڈرگز اور سیاسی مافیاز، انتظامی بے بسی، طاقتور لوگوں کے اثر و رسوخ اور معاشرتی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ آخر میں میری وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ محمود خان، ایم پی اے مصور خان، ایم این اے جنید اکبر سے التجاء ہے کہ جلد از جلد شہید محمد زادہ اور شہید عمر حیات کے قاتلوں کو ڈھونڈ کر انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے اورضلع مالاکنڈ میں مضبوط ڈرگز مافیا اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف سخت کی جائے۔