تنقیدی جوتا

ماجد رضا

شہزاد بھائی عرفِ عام میں شہزاد فرید اور با لکل عام میں استاد فرید کی تحریر پڑھنے کا موقع ملا۔ ایک بات تو واضع ہے کہ تحریر معلومات سے لبالب بھری ہوئی ہے، کیا یونان، کیا ہندوستان، پاکستان الغرض زمین ومکاں کے ذرے ذرے کی دھول چھان لی گئی۔ فلسفہ ، مذہب اور تاریخ کا ایک انوکھا امتزاج ہے اور تو اور تحریر ادبی چاشنی سے مزیّن قاری سے اٹکلیاں لے رہی ہے۔ سب “اچھا” کی رپورٹ ہے کیونکہ رہی سہی کسر سائنس اور سائنسی پنڈتوں کے ذکر نے پوری کردی ہے۔ مگر یہ تو چاہت تھی شہزاد فرید کی، قاری کیا چاہتا ہے؟ تو دل تھام کر سنیئےقاری ابھی اس دورِ پریشان میں دل گرفتاں ہے، دور کہیں صحرا کی تپتی دھوپ میں لحاف لئےخوابِ غفلت کے مزے لے رہا ہے، تحریر کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ قاری کی صرف انگلی نہ پکڑے بلکہ اس کے بازو کو جھنجھوڑ کراُسے اِس بات پر آمادہ کرےکہ ارے غافل کس جہاں کی رنگینوں میں خود کو دوبھر کر رہا ہے، اُٹھ اور اپنا قبلہ دُرست کر۔

بھائی کی تحریر میں شاید یہ سَقم پایا گیا ہے۔ سیرِفی الارض اپنی جگہ اہمیت کی حامل مگر شعورِ ذات بھی اپنا مقام رکھتا ہے، قاری سے میری مراد وہ زبوں حال مردِ مولا ہے، جس کی زندگی کا دائرہ کسم پُرسی سے شروع ہو کر ستم ظریفی پر فنا ہو جاتا ہے، اسے جوتوں اور تاریخِ جوتا سے کیا سروکار، وہ بیچارہ تو ازل سے ہی جوتوں کے زیرِ عتاب ہے۔اب جوتے یونانی ہوں یا افغانی، افلاطونی ہوں یا ملغانی ، سر بلٓاخرغریب کا ہی حاضر ہوتا ہے، جوتے باٹا کے ہوں یا فاٹا کے، جوتے جوتے ہی رہتے ہیں چاہے چاند کی پیشانی پر ہی کیوں سجا دئیے جائیں، میں پھر اس بات کا بصد احترام اعتراف کرتا ہوں، تحریرِ فرید میں معلومات کا خزانہ بدرجۂ اتم موجود تھا، مگر معلومات کے ساتھ ساتھ ترغیب دینے کے پہلو کا فقدان تھا جو کسی بھی فرد کی رہنمائی کے لیے آبِ حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔

جوتے نے حال ہی میں جونا روا سلوک ہمارے سابق وزیرِ اعظم کے ساتھ کیا اُس پر میں اظہارِ ہمدردی کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ایک واقعہ قومی تشخص کی نمائندگی کرتا ہوا ہمیں باور کروانے کی کوشش کررہا ہےکہ سامنے چاہے سابق وزیرِ اعظم ہی کیوں نہ ہوااظہارِ برہمی کا واحد ذریعہ اب جوتا ہی ہے۔حکمرانوں کی نااہلی تو روزِ روشن کی طرح عیاں تھی ہی مگر عوام کی طرف سے اظہارِ برہمی کا یہ انداز با ہر طور کچھ اچھی روایت نہیں ہے، بات عوامی عدالت کی ہو رہی تھی تو لیجیے عوامی جوتا بطور عوامی فیصلہ، جو کسی طور بھی ناقابلِ قبول ہے، نفرت جرم سے نہ کہ مجرم سے کے مصدا ق با اہلی قابلِ مذمت ضرور ہونی چاہیے مگر احترامِ انسان کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے جوتا پیروں میں ہی اچھا لگتا ہے۔