آؤشوٹس

عاطف توقیر کی نظم ’’آؤشوٹس‘‘

ان لاکھوں یہودیوں اور دیگر افراد کے نام جو قوم پرستی، نسل پرستی اور نفرت انگیزی کی بھینٹ چڑھ کر مارے گئے۔ یہ نظم ہر اس مظلوم کا نوحہ ہے، جس کا مذہب، رنگ، نسل، عقیدہ، فرقہ یا قومیت تو مختلف ہو سکتی ہے، مگر دکھ ایک سے ہیں۔ برما، سینکیانگ، کشمیر، افغانستان، یمن، عراق، شام، کردستان، فلسطین، نائجیریا، سوڈان، جنوبی سوڈان، برونڈی، وسطی افریقی جمہوریہ، ایتھوپیا، صومالیہ اور ظلم و جبر کی اس نہ ختم ہونے والی فہرست، جہاں آج بھی انسانیت سسک سسک کر زندگی کے حق کی دہائیاں دے رہی ہے۔

یہ نظم ان افراد کے نام بھی ہے، جو پرامن انداز سے اپنے حقوق کی جدوجہد کر رہے ہیں اور ہر طرح کے ظلم کے باوجود سینہ تان کر ظالم کے سامنے کھڑے ہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=IoJwhdTfej0

آؤشوِٹس

میرا نام سارہ ہے

سارہ گٹن برگ

میرا جرم اتنا سا ہے کہ مجھے اک یہودی گھرانے میں پھونکا گیا تھا

میرے باپ دادا یہودی تھے

وہ بھی اسی جرم میں ڈاخاؤ جا چکے ہیں

میں کیسے اتاروں بدن سے عقیدہ

عقیدہ جو میں نے چنا بھی نہیں ہے

مجھے نوچنے والے مردار خوروں نے میرا بدن مجھ کو لوٹا دیا ہے

مگر پیراہن میرے تن پر نہیں ہے

میں بانہوں سے سینہ چھپاتے ہوئے

دونوں ٹانگیں سکیڑے

کئی دوسرے اپنے جیسے

بدن ڈھانپے مجرموں کی قطاروں میں شامل ہوں

اور جانتی ہوں

کہ ان میں سے ہر ایک کا جرم یکساں ہے

یہ سب

عہدنامہء اولین کے تصور کی تعبیر میں

مصر تا اصفحاں

ریگ زارِ حجازی سے اسپین تک

پیراہن چھین کر

بازوؤں سے بدن ڈھانپتا چھوڑ کر

از ازل تا ابد

ہر جگہ

ہر زمیں سے نکالے گئے

سب کے سب آؤشوِٹس

کے زہریلے تیزاب میں

غسلِ آخر کی سنگین راہوں

سے کٹتے ہوئے

سانس لینے کی خواہش میں

خود اپنے ہاتھوں سے اپنے گلے نوچتے

باقی ماندہ بدن

اجتماعی قبرگاہ کو سونپتے

موسیٰ موسیٰ

کبھی ابراہیم اور یعقوب کے معجزوں کو پکارا کیے

سب بنی اسرائیلی قبیلے سے ہیں

وہ قبیلہ جسے آج تک

کوئی بھی سرزمیں

سینچتی ہی نہیں

آؤشوِٹس اک اذیت کا مرکز ہے

لیکن

تسلسل بھی ہے

ناقبولیتوں کو

عدم زندگی کا

تمسخر کا تحقیر کا

اس سے پہلے کی تاریخ بھی

صرف گنتی کا

اعداد کا کھیل تھی

اور اب بھی یہاں

لاکھ دو لاکھ کی بحث میں

جسم پر

جسم کے اندروں

میرے گھاؤ

میری روح کے بل

میری بے زمینی

میرے ننگے پاؤں

میری موت

میری اذیت

کی تفصیل کھو جائے گی

میں کہ سارہ گٹن برگ

بس اک تسلسل ہوں

اس بستی رائیگانی کی زنجیر کا